قوموں کے لیے موت ہے مرکز سے جُدائی ہو صاحبِ مرکز تو خودی کیا ہے، خدائی! جو فقر ہُوا تلخیِ دوراں کا گِلہ مند اُس فقر میں باقی ہے ابھی بُوئے گدائی اس دور میں بھی مردِ خُدا کو ہے میَسّر جو معجزہ پربت کو بنا سکتا ہے رائی در معرکہ بے سوزِ تو ذوقے نتواں یافت اے بندۂ مومن تو کجائی، تو کجائی خورشید! سرا پردۂ مشرق سے نکل کر پہنا مرے کُہسار کو ملبوسِ حنائی |