عشق طینت میں فرومایہ نہیں مثلِ ہوَس پرِ شہباز سے ممکن نہیں پروازِ مگَس یوں بھی دستورِ گُلستاں کو بدل سکتے ہیں کہ نشیمن ہو عنادل پہ گراں مثلِ قفَس سفر آمادہ نہیں منتظرِ بانگِ رحیل ہے کہاں قافلۂ موج کو پروائے جرَس! گرچہ مکتب کا جواں زندہ نظر آتا ہے مرُدہ ہے، مانگ کے لایا ہے فرنگی سے نفَس پرورِش دل کی اگر مدِّ نظر ہے تجھ کو مردِ مومن کی نگاہِ غلط انداز ہے بس! |