صفحہ اوّل

دل
قصّۂ دار و رسَن بازیِ طفلانۂ دل
التجائے ’اَرِنی‘ سُرخیِ افسانۂ دل
یا رب اس ساغرِ لبریز کی مے کیا ہو گی
جادۂ مُلکِ بقا ہے خطِ پیمانۂ دل
ابرِ رحمت تھا کہ تھی عشق کی بجلی یا رب!
جل گئی مزرعِ ہستی تو اُگا دانۂ دل
حُسن کا گنجِ گراں مایہ تجھے مِل جاتا
تُو نے فرہاد! نہ کھودا کبھی ویرانۂ دل!
عرش کا ہے کبھی کعبے کا ہے دھوکا اس پر
کس کی منزل ہے الٰہی! مرا کاشانۂ دل
اس کو اپنا ہے جُنوں اور مجھے سودا اپنا
دل کسی اور کا دیوانہ، میں دیوانۂ دل
تُو سمجھتا نہیں اے زاہدِ ناداں اس کو
رشکِ صد سجدہ ہے اک لغزشِ مستانۂ دل
خاک کے ڈھیر کو اِکسیر بنا دیتی ہے
وہ اثر رکھتی ہے خاکسترِ پروانۂ دل
عشق کے دام میں پھنس کر یہ رِہا ہوتا ہے
برق گرتی ہے تو یہ نخل ہرا ہوتا ہے