شُعاعِ اُمِّید | |
سُورج نے دیا اپنی شعاعوں کو یہ پیغام دُنیا ہے عجب چیز، کبھی صبح کبھی شام مُدّت سے تم آوارہ ہو پہنائے فضا میں بڑھتی ہی چلی جاتی ہے بے مہریِ ایّام نے ریت کے ذرّوں پہ چمکنے میں ہے راحت نے مثلِ صبا طوفِ گل و لالہ میں آرام پھر میرے تجلّی کدۂ دل میں سما جاؤ چھوڑو چمَنِستان و بیابان و در و بام آفاق کے ہر گوشے سے اُٹھتی ہیں شعاعیں بچھڑے ہُوئے خورشید سے ہوتی ہیں ہم آغوش اک شور ہے، مغرب میں اُجالا نہیں ممکن افرنگ مشینوں کے دھُویں سے ہے سیَہ پوش مشرق نہیں گو لذّتِ نظّارہ سے محروم لیکن صفَتِ عالمِ لاہُوت ہے خاموش پھر ہم کو اُسی سینۂ روشن میں چھُپا لے اے مہرِ جہاں تاب! نہ کر ہم کو فراموش اک شوخ کرن، شوخ مثالِ نگہِ حُور آرام سے فارغ، صفَتِ جوہرِ سیماب بولی کہ مجھے رُخصتِ تنویر عطا ہو جب تک نہ ہو مشرق کا ہر اک ذرّہ جہاں تاب چھوڑوں گی نہ مَیں ہِند کی تاریک فضا کو جب تک نہ اُٹھیں خواب سے مردانِ گراں خواب خاور کی اُمیدوں کا یہی خاک ہے مرکز اقبالؔ کے اشکوں سے یہی خاک ہے سیراب چشمِ مہ و پرویں ہے اسی خاک سے روشن یہ خاک کہ ہے جس کا خزَف ریزہ دُرِناب اس خاک سے اُٹھّے ہیں وہ غوّاصِ معانی جن کے لیے ہر بحرِ پُر آشوب ہے پایاب جس ساز کے نغموں سے حرارت تھی دِلوں میں محفل کا وہی ساز ہے بیگانۂ مضراب بُت خانے کے دروازے پہ سوتا ہے برَہمن تقدیر کو روتا ہے مسلماں تہِ محراب مشرق سے ہو بیزار، نہ مغرب سے حذر کر فِطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحَر کر! |