سُلطانی٭ | |
کسے خبر کہ ہزاروں مقام رکھتا ہے وہ فقر جس میں ہے بے پردہ روحِ قُرآنی خودی کو جب نظر آتی ہے قاہری اپنی یہی مقام ہے کہتے ہیں جس کو سُلطانی یہی مقام ہے مومن کی قُوّتوں کا عیار اسی مقام سے آدم ہے ظِلّ سُبحانی یہ جبر و قہر نہیں ہے، یہ عشق و مستی ہے کہ جبر و قہر سے ممکن نہیں جہاں بانی کِیا گیا ہے غلامی میں مبتلا تجھ کو کہ تجھ سے ہو نہ سکی فقر کی نگہبانی مثالِ ماہ چمکتا تھا جس کا داغِ سجود خرید لی ہے فرنگی نے وہ مسلمانی ہوا حریفِ مہ و آفتاب تُو جس سے رہی نہ تیرے ستاروں میں وہ دُرخشانی |