صفحہ اوّل

شاہِیں
کِیا میں نے اُس خاک داں سے کنارا
جہاں رزق کا نام ہے آب و دانہ
بیاباں کی خلوت خوش آتی ہے مجھ کو
ازل سے ہے فطرت مری راہبانہ
نہ باد بہاری، نہ گُلچیں، نہ بُلبل
نہ بیماریِ نغمۂ عاشقانہ
خیابانیوں سے ہے پرہیز لازم
ادائیں ہیں ان کی بہت دلبرانہ
ہوائے بیاباں سے ہوتی ہے کاری
جواں مرد کی ضربتِ غازیانہ
حمام و کبوتر کا بھُوکا نہیں مَیں
کہ ہے زندگی باز کی زاہدانہ
جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا
لہُو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
یہ پورب، یہ پچھم چکوروں کی دنیا
مِرا نیلگوں آسماں بیکرانہ
پرندوں کی دُنیا کا درویش ہوں مَیں
کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ