اِبلیس کی عرضداشت | |
کہتا تھا عزازیل خداوندِ جہاں سے پرکالۂ آتش ہُوئی آدم کی کفِ خاک! جاں لاغر و تن فربہ و ملبُوس بدن زیب دل نزع کی حالت میں، خِرد پُختہ و چالاک! ناپاک جسے کہتی تھی مشرق کی شریعت مغرب کے فقیہوں کا یہ فتویٰ ہے کہ ہے پاک! تجھ کو نہیں معلوم کہ حُورانِ بہشتی ویرانیِ جنت کے تصوّر سے ہیں غم ناک؟ جمہور کے اِبلیس ہیں اربابِ سیاست باقی نہیں اب میری ضرورت تہِ افلاک! |