تاتاری کا خواب | |
کہیں سجّادہ و عمّامہ رہزن کہیں ترسا بچوں کی چشمِ بے باک! ردائے دِین و ملّت پارہ پارہ قبائے ملک و دولت چاک در چاک! مرا ایماں تو ہے باقی و لیکن نہ کھا جائے کہیں شُعلے کو خاشاک! ہوائے تُند کی موجوں میں محصور سمرقند و بخارا کی کفِ خاک! ’بگرداگردِ خود چندانکہ بینم بلا انگشتری و من نگینم*‘ | |
یکایک ہِل گئی خاکِ سمرقند اُٹھا تیمور کی تُربت سے اک نور شفَق آمیز تھی اُس کی سفیدی صدا آئی کہ “مَیں ہوں رُوحِ تیمور اگر محصُور ہیں مردانِ تاتار نہیں اللہ کی تقدیر محصور تقاضا زندگی کا کیا یہی ہے کہ تُورانی ہو تُورانی سے مہجور؟ ’خودی را سوز و تابے دیگرے دہ جہاں را انقلابے دیگرے دہ” |