صفحہ اوّل

پنچاب کے دہقان سے
بتا کیا تری زندگی کا ہے راز
ہزاروں برس سے ہے تُو خاک باز
اسی خاک میں دب گئی تیری آگ
سحَر کی اذاں ہوگئی، اب تو جاگ!
زمیں میں ہے گو خاکیوں کی برات
نہیں اس اندھیرے میں آبِ حیات
زمانے میں جھُوٹا ہے اُس کا نِگیں
جو اپنی خودی کو پرکھتا نہیں
بُتانِ شعوب و قبائل کو توڑ
رسُومِ کُہَن کے سلاسل کو توڑ
یہی دِین محکم، یہی فتحِ باب
کہ دنیا میں توحید ہو بے حجاب
بخاکِ بدن دانۂ دل فشاں
کہ ایں دانہ داردزحاصِل نشاں