صفحہ اوّل
فہرست میں واپسی
فرشتوں کا گیت
عقل ہے بے زمام ابھی، عشق ہے بے مقام ابھی
نقش گرِ اَزل! ترا نقش ہے نا تمام ابھی
خلقِ خدا کی گھات میں رِند و فقیہ و مِیر و پیر
تیرے جہاں میں ہے وہی گردشِ صُبح و شام ابھی
تیرے امیر مال مست، تیرے فقیر حال مست
بندہ ہے کُوچہ گرد ابھی، خواجہ بلند بام ابھی
دانش و دِین و علم و فن بندگیِ ہُوس تمام
عشقِ گرہ کشاے کا فیض نہیں ہے عام ابھی
جوہرِ زندگی ہے عشق، جوہرِ عشق ہے خودی
آہ کہ ہے یہ تیغِ تیز پردگیِ نیام ابھی!