صفحہ اوّل

لینن
(خدا کے حضور میں)
اے انفُس و آفاق میں پیدا ترے آیات
حق یہ ہے کہ ہے زندہ و پائندہ تِری ذات
میں کیسے سمجھتا کہ تو ہے یا کہ نہیں ہے
ہر دم متغّیر تھے خرد کے نظریّات
محرم نہیں فطرت کے سرودِ اَزلی سے
بِینائے کواکب ہو کہ دانائے نباتات
آج آنکھ نے دیکھا تو وہ عالم ہُوا ثابت
میں جس کو سمجھتا تھا کلیسا کے خرافات
ہم بندِ شب و روز میں جکڑے ہُوئے بندے
تُو خالقِ اعصار و نگارندۂ آنات!
اک بات اگر مجھ کو اجازت ہو تو پُوچھوں
حل کر نہ سکے جس کو حکیموں کے مقالات
جب تک میں جِیا خیمۂ افلاک کے نیچے
کانٹے کی طرح دل میں کھٹکتی رہی یہ بات
گفتار کے اسلوب پہ قابُو نہیں رہتا
جب رُوح کے اندر متلاطم ہوں خیالات
وہ کون سا آدم ہے کہ تُو جس کا ہے معبود
وہ آدمِ خاکی کہ جو ہے زیرِ سماوات؟
مشرق کے خداوند سفیدانِ فرنگی
مغرب کے خداوند درخشندہ فِلِزّات
یورپ میں بہت روشنیِ علم و ہُنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمۂ حیواں ہے یہ ظُلمات
رعنائیِ تعمیر میں، رونق میں، صفا میں
گِرجوں سے کہیں بڑھ کے ہیں بنکوں کی عمارات
ظاہر میں تجارت ہے، حقیقت میں جُوا ہے
سُود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگِ مفاجات
یہ عِلم، یہ حِکمت، یہ تدبُّر، یہ حکومت
پیتے ہیں لہُو، دیتے ہیں تعلیمِ مساوات
بے کاری و عُریانی و مے خواری و اِفلاس
کیا کم ہیں فرنگی مَدنِیّت کے فتوحات
وہ قوم کہ فیضانِ سماوی سے ہو محروم
حد اُس کے کمالات کی ہے برق و بخارات
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروّت کو کُچل دیتے ہیں آلات
آثار تو کچھ کچھ نظر آتے ہیں کہ آخر
تدبیر کو تقدیر کے شاطر نے کیا مات
میخانے کی بُنیاد میں آیا ہے تزَلزُل
بیٹھے ہیں اسی فکر میں پِیرانِ خرابات
چہروں پہ جو سُرخی نظر آتی ہے سرِ شام
یا غازہ ہے یا ساغر و مِینا کی کرامات
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات
کب ڈُوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟
دُنیا ہے تری منتظرِ روزِ مکافات!