طارق کی دُعا (اندلس کے میدانِ جنگ میں) | |
یہ غازی، یہ تیرے پُر اسرار بندے جنھیں تُو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی دونیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا سِمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو عجب چیز ہے لذّتِ آشنائی شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن نہ مالِ غنیمت نہ کِشور کشائی خیاباں میں ہے مُنتظر لالہ کب سے قبا چاہیے اس کو خُونِ عرب سے | |
کیا تُو نے صحرا نشینوں کو یکتا خبر میں، نظر میں، اذانِ سحَر میں طلب جس کی صدیوں سے تھی زندگی کو وہ سوز اس نے پایا انھی کے جگر میں کُشادِ درِ دل سمجھتے ہیں اس کو ہلاکت نہیں موت ان کی نظر میں دلِ مردِ مومن میں پھر زندہ کر دے وہ بجلی کہ تھی نعرۂ ’لَاتَذَر‘ میں عزائم کو سینوں میں بیدار کر دے نگاہِ مسلماں کو تلوار کر دے! |