شعور و ہوش و خرد کا معاملہ ہے عجیب مقامِ شوق میں ہیں سب دل و نظر کے رقیب | |
میں جانتا ہوں جماعت کا حشر کیا ہو گا مسائلِ نظَری میں اُلجھ گیا ہے خطیب | |
اگرچہ میرے نشیمن کا کر رہا ہے طواف مری نوا میں نہیں طائرِ چمن کا نصیب | |
سُنا ہے میں نے سخن رس ہے تُرکِ عثمانی سُنائے کون اسے اقبالؔ کا یہ شعرِ غریب | |
سمجھ رہے ہیں وہ یورپ کو ہم جوار اپنا ستارے جن کے نشیمن سے ہیں زیادہ قریب! |