نہ تخت و تاج میں نَے لشکر و سپاہ میں ہے جو بات مردِ قلندر کی بارگاہ میں ہے | |
صنَمکدہ ہے جہاں اور مردِ حق ہے خلیل یہ نکتہ وہ ہے کہ پوشیدہ لااِلٰہ میں ہے | |
وہی جہاں ہے تِرا جس کو تُو کرے پیدا یہ سنگ و خِشت نہیں، جو تری نگاہ میں ہے | |
مہ و ستارہ سے آگے مقام ہے جس کا وہ مُشتِ خاک ابھی آوارگانِ راہ میں ہے | |
خبر مِلی ہے خدایانِ بحر و بَر سے مجھے فرنگ رہ گزرِ سیلِ بے پناہ میں ہے | |
تلاش اس کی فضاؤں میں کر نصیب اپنا جہانِ تازہ مری آہِ صُبح گاہ میں ہے | |
مِرے کدو کو غنیمت سمجھ کہ بادۂ ناب نہ مَدرسے میں ہے باقی نہ خانقاہ میں ہے |