ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں | |
تہی، زندگی سے نہیں یہ فضائیں یہاں سینکڑوں کارواں اور بھی ہیں | |
قناعت نہ کر عالمِ رنگ و بُو پر چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں | |
اگر کھو گیا اک نشیمن تو کیا غم مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی ہیں | |
تو شاہیں ہے، پرواز ہے کام تیرا ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں | |
اسی روز و شب میں اُلجھ کر نہ رہ جا کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں | |
گئے دن کہ تنہا تھا مَیں انجمن میں یہاں اب مِرے رازداں اور بھی ہیں |