یہ پِیرانِ کلیسا و حرم، اے وائے مجبوری! صِلہ ان کی کدوی کاوش کا ہے سینوں کی بے نوری | |
یقیں پیدا کر اے ناداں! یقیں سے ہاتھ آتی ہے وہ درویشی، کہ جس کے سامنے جھُکتی ہے فغفوری | |
کبھی حیرت، کبھی مستی، کبھی آہِ سحَرگاہی بدلتا ہے ہزاروں رنگ میرا دردِ مہجوری | |
حدِ ادراک سے باہر ہیں باتیں عشق و مستی کی سمجھ میں اس قدر آیا کہ دل کی موت ہے، دُوری | |
وہ اپنے حُسن کی مستی سے ہیں مجبورِ پیدائی مری آنکھوں کی بینائی میں ہیں اسبابِ مستوری | |
کوئی تقدیر کی منطق سمجھ سکتا نہیں ورنہ نہ تھے ترکانِ عثمانی سے کم ترکانِ تیموری | |
فقیرانِ حرم کے ہاتھ اقبالؔ آگیا کیونکر میّسر میر و سُلطاں کو نہیں شاہینِ کافوری |