خِردمندوں سے کیا پُوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے کہ مَیں اس فکر میں رہتا ہوں، میری انتہا کیا ہے | |
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پُوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے | |
مقامِ گُفتگو کیا ہے اگر مَیں کیمیاگر ہوں یہی سوزِ نفَس ہے، اَور میری کیمیا کیا ہے! | |
نظر آئیں مجھے تقدیر کی گہرائیاں اُس میں نہ پُوچھ اے ہم نشیں مجھ سے وہ چشمِ سُرمہ سا کیا ہے | |
اگر ہوتا وہ مجذوبِ* فرنگی اس زمانے میں تو اقبالؔ اس کو سمجھاتا مقامِ کبریا کیا ہے | |
نوائے صُبحگاہی نے جگر خُوں کر دیا میرا خدایا جس خطا کی یہ سزا ہے، وہ خطا کیا ہے! |