تُو اے اسیرِ مکاں! لامکاں سے دور نہیں وہ جلوہگاہ ترے خاکداں سے دور نہیں | |
وہ مرغزار کہ بیمِ خزاں نہیں جس میں غمیں نہ ہو کہ ترے آشیاں سے دور نہیں | |
یہ ہے خلاصۂ علمِ قلندری کہ حیات خدنگِ جَستہ ہے لیکن کماں سے دور نہیں | |
فضا تری مہ و پرویں سے ہے ذرا آگے قدم اُٹھا، یہ مقام آسماں سے دور نہیں | |
کہے نہ راہنُما سے کہ چھوڑ دے مجھ کو یہ بات راہروِ نکتہداں سے دُور نہیں |