نہ تُو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے جہاں ہے تیرے لیے، تُو نہیں جہاں کے لیے | |
یہ عقل و دِل ہیں شرر شُعلۂ محبّت کے وہ خار و خَس کے لیے ہے، یہ نیستاں کے لیے | |
مقامِ پروَرشِ آہ و نالہ ہے یہ چمن نہ سیرِ گُل کے لیے ہے نہ آشیاں کے لیے | |
رہے گا راوی و نیل و فرات میں کب تک ترا سفینہ کہ ہے بحرِ بے کراں کے لیے! | |
نشانِ راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو ترس گئے ہیں کسی مردِ راہداں کے لیے | |
نِگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پُرسوز یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے | |
ذرا سی بات تھی، اندیشۂ عجم نے اسے بڑھا دیا ہے فقط زیبِ داستاں کے لیے | |
مِرے گُلو میں ہے اک نغمہ جبرئیل آشوب سنبھال کر جسے رکھّا ہے لامکاں کے لیے |