خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں | |
ہر اک مقام سے آگے مقام ہے تیرا حیات ذوقِ سفر کے سوا کچھ اور نہیں | |
گراں بہا ہے تو حِفظِ خودی سے ہے ورنہ گُہَر میں آبِ گُہَر کے سوا کچھ اور نہیں | |
رگوں میں گردشِ خُوں ہے اگر تو کیا حاصل حیات سوزِ جگر کے سوا کچھ اور نہیں | |
عروسِ لالہ! مُناسب نہیں ہے مجھ سے حجاب کہ مَیں نسیمِ سحَر کے سوا کچھ اور نہیں | |
جسے کساد سمجھتے ہیں تاجرانِ فرنگ وہ شے متاعِ ہُنر کے سوا کچھ اور نہیں | |
بڑا کریم ہے اقبالِؔ بے نوا لیکن عطائے شُعلہ شرر کے سوا کچھ اور نہیں |