خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں تُو آبجُو اسے سمجھا اگر تو چارہ نہیں | |
طلسمِ گُنبدِ گردُوں کو توڑ سکتے ہیں زُجاج کی یہ عمارت ہے، سنگِ خارہ نہیں | |
خودی میں ڈُوبتے ہیں پھر اُبھر بھی آتے ہیں مگر یہ حوصلۂ مردِ ہیچ کارہ نہیں | |
ترے مقام کو انجم شناس کیا جانے کہ خاکِ زندہ ہے تُو، تابعِ ستارہ نہیں | |
یہیں بہشت بھی ہے، حُور و جبرئیل بھی ہے تری نگہ میں ابھی شوخیِ نظارہ نہیں | |
مرے جُنوں نے زمانے کو خوب پہچانا وہ پیرہن مجھے بخشا کہ پارہ پارہ نہیں | |
غضب ہے، عینِ کرم میں بخیل ہے فطرت کہ لعلِ ناب میں آتش تو ہے، شرارہ نہیں |