صفحہ اوّل


(کابل میں لِکھّے گئے)
مسلماں کے لہُو میں ہے سلیقہ دل نوازی کا
مرّوت حُسنِ عالم‌گیر ہے مردانِ غازی کا
شکایت ہے مجھے یا رب! خداوندانِ مکتب سے
سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا
بہت مدّت کے نخچیروں کا اندازِ نگہ بدلا
کہ مَیں نے فاش کر ڈالا طریقہ شاہبازی کا
قلندر جُز دو حرفِ لااِلہ کچھ بھی نہیں رکھتا
فقیہِ شہر قاروں ہے لُغَت ہائے حجازی کا
حدیثِ بادہ و مینا و جام آتی نہیں مجھ کو
نہ کر خارا شگافوں سے تقاضا شیشہ سازی کا
کہاں سے تُونے اے اقبالؔ سِیکھی ہے یہ درویشی
کہ چرچا پادشاہوں میں ہے تیری بے نیازی کا