اپنی جولاںگاہ زیرِ آسماں سمجھا تھا میں آب و گِل کے کھیل کو اپنا جہاں سمجھا تھا میں | |
بے حجابی سے تری ٹُوٹا نگاہوں کا طلسم اک رِدائے نیلگوں کو آسماں سمجھا تھا میں | |
کارواں تھک کر فضا کے پیچ و خم میں رہ گیا مہر و ماہ و مشتری کو ہم عناں سمجھا تھا میں | |
عشق کی اِک جَست نے طے کر دیا قصّہ تمام اس زمین و آسماں کو بےکراں سمجھا تھا میں | |
کہہ گئیں رازِ محبّت پردہ دارِیہاے شوق تھی فغاں وہ بھی جسے ضبطِ فغاں سمجھا تھا میں | |
تھی کسی درماندہ رہرو کی صداے دردناک جس کو آوازِ رحیلِ کارواں سمجھا تھا میں |