ضمیرِ لالہ مئے لعل سے ہُوا لبریز اشارہ پاتے ہی صوفی نے توڑ دی پرہیز | |
بچھائی ہے جو کہیں عشق نے بساط اپنی کِیا ہے اس نے فقیروں کو وارثِ پرویز | |
پُرانے ہیں یہ ستارے، فلک بھی فرسُودہ جہاں وہ چاہیے مجھ کو کہ ہو ابھی نَوخیز | |
کسے خبر ہے کہ ہنگامۂ نشور ہے کیا تری نگاہ کی گردش ہے میری رستاخیز | |
نہ چھین لذّتِ آہِ سحَرگہی مجھ سے نہ کر نِگہ سے تغافل کو التفات آمیز | |
دلِ غمیں کے موافق نہیں ہے موسمِ گُل صدائے مُرغِ چمن ہے بہت نشاط انگیز | |
حدیثِ بے خبراں ہے، تو با زمانہ بساز زمانہ با تو نسازد، تو با زمانہ ستیز |