![]() |
| ٭ | |
| تکرار تھی مزارع و مالک میں ایک روز دونوں یہ کہہ رہے تھے، مرا مال ہے زمیں | |
| کہتا تھا وہ، کرے جو زراعت اُسی کا کھیت کہتا تھا یہ کہ عقل ٹھکانے تری نہیں | |
| پُوچھا زمیں سے مَیں نے کہ ہے کس کا مال تُو بولی مجھے تو ہے فقط اس بات کا یقیں | |
| مالک ہے یا مزارعِ شوریدہ حال ہے جو زیرِ آسماں ہے، وہ دھَرتی کا مال ہے | |