٭ | |
کبھی اے حقیقتِ منتظَر! نظر آ لباسِ مجاز میں کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں | |
طرَب آشنائے خروش ہو، تُو نَوا ہے محرمِ گوش ہو وہ سرود کیا کہ چھُپا ہوا ہو سکوتِ پردۂ ساز میں | |
تُو بچا بچا کے نہ رکھ اسے، ترا آئنہ ہے وہ آئنہ کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئنہ ساز میں | |
دمِ طوف کرمکِ شمع نے یہ کہا کہ وہ اَثرِ کہن نہ تری حکایتِ سوز میں، نہ مری حدیثِ گداز میں | |
نہ کہیں جہاں میں اماں مِلی، جو اماں مِلی تو کہاں مِلی مرے جُرمِ خانہ خراب کو ترے عفوِ بندہ نواز میں | |
نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں، نہ وہ حُسن میں رہیں شوخیاں نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی، نہ وہ خم ہے زُلفِ ایاز میں | |
جو میں سر بسجدہ ہُوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا ترا دل تو ہے صنَم آشنا، تجھے کیا مِلے گا نماز میں |