٭ | |
اے بادِ صبا! کملی والےؐ سے جا کہیو پیغام مرا قبضے سے اُمّت بیچاری کے دِیں بھی گیا، دنیا بھی گئی | |
یہ موجِ پریشاں خاطر کو پیغام لبِ ساحل نے دیا ہے دُور وصالِ بحر ابھی، تُو دریا میں گھبرا بھی گئی! | |
عزّت ہے محبّت کی قائم اے قیس! حجابِ محمل سے محمل جو گیا عزّت بھی گئی، غیرت بھی گئی، لَیلا بھی گئی | |
کی ترک تگودو قطرے نے تو آبروئے گوہر بھی مِلی آوارگیِ فطرت بھی گئی اور کشمکشِ دریا بھی گئی | |
نکلی تو لبِ اقبالؔ سے ہے، کیا جانیے کس کی ہے یہ صدا پیغامِ سکوں پہنچا بھی گئی، دل محفل کا تڑپا بھی گئی |