![]()  | 
| عقل و دِل | |
| عقل نے ایک دن یہ دل سے کہا بھُولے بھٹکے کی رہنما ہُوں میں  | |
| ہوں زمیں پر، گزر فلک پہ مرا دیکھ تو کس قدر رسا ہوں میں  | |
| کام دنیا میں رہبری ہے مرا مثل خضرِ خجستہ پا ہوں میں  | |
| ہوں مفسِّر کتابِ ہستی کی مظہرِ شانِ کبریا ہوں میں  | |
| بوند اک خون کی ہے تُو لیکن غیرتِ لعلِ بے بہا ہوں میں  | |
| دل نے سُن کر کہا یہ سب سچ ہے پر مجھے بھی تو دیکھ، کیا ہوں میں  | |
| رازِ ہستی کو تُو سمجھتی ہے اور آنکھوں سے دیکھتا ہوں میں!  | |
| ہے تجھے واسطہ مظاہر سے اور باطن سے آشنا ہوں میں  | |
| عِلم تجھ سے تو معرفت مجھ سے تُو خدا جُو، خدا نما ہوں میں  | |
| علم کی انتہا ہے بے تابی اس مرض کی مگر دوا ہوں میں  | |
| شمع تُو محفلِ صداقت کی حُسن کی بزم کا دِیا ہوں میں  | |
| تُو زمان و مکاں سے رشتہ بپا طائرِ سِدرہ آشنا ہوں میں  | |
| کس بلندی پہ ہے مقام مرا عرش ربِّ جلیل کا ہوں میں!  | |