صفحہ اوّل

پھُولوں کی شہز ادی
کلی سے کہہ رہی تھی ایک دن شبنم گُلستاں میں
رہی مَیں ایک مدّت غنچہ ہائے باغِ رضواں میں
تمھارے گُلستاں کی کیفیت سرشار ہے ایسی
نِگہ فردوس در دامن ہے میری چشمِ حیراں میں
سُنا ہے کوئی شہزادی ہے حاکم اس گُلستاں کی
کہ جس کے نقشِ پا سے پھُول ہوں پیدا بیاباں میں
کبھی ساتھ اپنے اُس کے آستاں تک مجھ کو تُو لے چل
چھُپا کر اپنے دامن میں برنگِ موجِ بُو لے چل
کلی بولی، سریر آرا ہماری ہے وہ شہزادی
درخشاں جس کی ٹھوکر سے ہوں پتھّر بھی نگیں بن کر
مگر فطرت تری اُفتندہ اور بیگم کی شان اونچی
نہیں ممکن کہ تُو پہنچے ہماری ہم‌نشیں بن کر
پہنچ سکتی ہے تُو لیکن ہماری شاہزادی تک
کسی دُکھ درد کے مارے کا اشکِ آتشیں بن کر
نظر اُس کی پیامِ عید ہے اہلِ مُحرّم کو
بنا دیتی ہے گوہر غم زدوں کے اشکِ پیہم کو