مسلمان اور تعلیمِ جدید تضمین بر شعرِ ملک قُمیؔ | |
مُرشد کی یہ تعلیم تھی اے مسلمِ شوریدہ سر لازم ہے رہرو کے لیے دُنیا میں سامانِ سفر | |
بدلی زمانے کی ہوا، ایسا تغیّر آگیا تھے جو گراں قیمت کبھی، اب ہیں متاعِ کس مخر | |
وہ شُعلۂ روشن ترا، ظُلمت گریزاں جس سے تھی گھَٹ کر ہُوا مثلِ شرر تارے سے بھی کم نُور تر | |
شیدائیِ غائب نہ رہ، دیوانۂ موجود ہو غالب ہے اب اقوام پر معبودِ حاضر کا اثر | |
ممکن نہیں اس باغ میں کوشِش ہو بارآور تری فرسُودہ ہے پھندا ترا، زِیرک ہے مُرغِ تیز پر | |
اس دَور میں تعلیم ہے امراضِ مِلّت کی دوا ہے خُونِ فاسد کے لیے تعلیم مثلِ نیشتر | |
رہبر کے ایما سے ہُوا تعلیم کا سودا مجھے واجب ہے صحراگرد پر تعمیل فرمانِ خضَر | |
لیکن نگاہِ نُکتہبیں دیکھے زبُوں بختی مری “رفتم کہ خار از پا کشم، محمل نہاں شد از نظر | |
یک لحظ غافل گشتم و صد سالہ را ہم دُور شد” |