نانک | |
قوم نے پیغامِ گوتم کی ذرا پروا نہ کی قدر پہچانی نہ اپنے گوہرِ یک دانہ کی | |
آہ! بد قسمت رہے آوازِ حق سے بے خبر غافل اپنے پھل کی شیرینی سے ہوتا ہے شجر | |
آشکار اُس نے کِیا جو زندگی کا راز تھا ہند کو لیکن خیالی فلسفے پر ناز تھا | |
شمعِ حق سے جو منّور ہو یہ وہ محفل نہ تھی بارشِ رحمت ہوئی لیکن زمیں قابل نہ تھی | |
آہ! شُودر کے لیے ہندوستاں غم خانہ ہے دردِ انسانی سے اس بستی کا دل بیگانہ ہے | |
برہَمن سرشار ہے اب تک مئے پندار میں شمعِ گوتم جل رہی ہے محفلِ اغیار میں | |
بُت کدہ پھر بعد مُدّت کے مگر روشن ہُوا نُورِ ابراہیمؑ سے آزر کا گھر روشن ہُوا | |
پھر اُٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے ہند کو اک مردِ کامل نے جگایا خواب سے |