تہذیبِ حاضر تضمین بر شعرِ فیضیؔ | |
حرارت ہے بلا کی بادۂ تہذیبِ حاضر میں بھڑک اُٹھّا بھبُوکا بن کے مُسلم کا تنِ خاکی | |
کِیا ذرّے کو جُگنو دے کے تابِ مُستعار اس نے کوئی دیکھے تو شوخی آفتابِ جلوہ فرما کی | |
نئے انداز پائے نوجوانوں کی طبیعت نے یہ رعنائی، یہ بیداری، یہ آزادی، یہ بے باکی | |
تغیّر آگیا ایسا تدبّر میں، تخیّل میں ہنسی سمجھی گئی گُلشن میں غُنچوں کی جگر چاکی | |
کِیا گُم تازہ پروازوں نے اپنا آشیاں لیکن مناظر دِلکُشا دِکھلا گئی ساحر کی چالاکی | |
حیاتِ تازہ اپنے ساتھ لائی لذّتیں کیا کیا رقابت، خودفروشی، ناشکیبائی، ہوسناکی | |
فروغِ شمعِ نَو سے بزمِ مسلم جگمگا اُٹھّی مگر کہتی ہے پروانوں سے میری کُہنہ اِدراکی | |
“تو اے پروانہ! ایں گرمی ز شمع محفلے داری چو من در آتشِ خود سوز اگر سوزِ دلے داری” |