تضمین بر شعرِ ابوطالب کلیمؔ | |
خوب ہے تجھ کو شعارِ صاحبِ یثرِبؐ کا پاس کہہ رہی ہے زندگی تیری کہ تُو مسلم نہیں | |
جس سے تیرے حلقۂ خاتم میں گردُوں تھا اسیر اے سلیماں! تیری غفلت نے گنوایا وہ نگیں | |
وہ نشانِ سجدہ جو روشن تھا کوکب کی طرح ہوگئی ہے اُس سے اب ناآشنا تیری جبیں | |
دیکھ تو اپنا عمل، تجھ کو نظر آتی ہے کیا وہ صداقت جس کی بےباکی تھی حیرت آفریں | |
تیرے آبا کی نِگہ بجلی تھی جس کے واسطے ہے وہی باطل ترے کاشانۂ دل میں مکیں | |
غافل! اپنے آشیاں کو آ کے پھر آباد کر نغمہ زن ہے طُورِ معنی پر کلیمِ نکتہ بیں | |
“سرکشی باہر کہ کردی رامِ او باید شدن شعلہساں از ہر کجا برخاستی، آنجانشیں" |