غلام قادر رُہیلہ | |
رُہیلہ کس قدر ظالم، جفاجُو، کینہپرور تھا نکالِیں شاہِ تیموری کی آنکھیں نوکِ خنجر سے | |
دیا اہلِ حرم کو رقص کا فرماں ستمگر نے یہ اندازِ ستم کچھ کم نہ تھا آثارِ محشر سے | |
بھلا تعمیل اس فرمانِ غیرت کُش کی ممکن تھی! شہنشاہی حرم کی نازنینانِ سمن بر سے | |
بنایا آہ! سامانِ طرب بیدرد نے اُن کو نہاں تھا حُسن جن کا چشمِ مہر و ماہ و اختر سے | |
لرزتے تھے دلِ نازک، قدم مجبورِ جُنبش تھے رواں دریائے خُوں، شہزادیوں کے دیدۂ تر سے | |
یونہی کچھ دیر تک محوِ نظر آنکھیں رہیں اُس کی کِیا گھبرا کے پھر آزاد سر کو بارِ مِغفَر سے | |
کمر سے، اُٹھ کے تیغِ جاںستاں، آتشفشاں کھولی سبق آموز تابانی ہوں انجم جس کے جوہر سے | |
رکھا خنجر کو آگے اور پھر کچھ سوچ کر لیٹا تقاضا کر رہی تھی نیند گویا چشمِ احمر سے | |
بُجھائے خواب کے پانی نے اخگر اُس کی آنکھوں کے نظر شرما گئی ظالم کی درد انگیز منظر سے | |
پھر اُٹھّا اور تیموری حرم سے یوں لگا کہنے شکایت چاہیے تم کو نہ کچھ اپنے مقّدر سے | |
مرا مَسند پہ سو جانا بناوٹ تھی، تکلّف تھا کہ غفلت دُور ہے شانِ صف آرایانِ لشکر سے | |
یہ مقصد تھا مرا اس سے، کوئی تیمور کی بیٹی مجھے غافل سمجھ کر مار ڈالے میرے خنجر سے | |
مگر یہ راز آخر کھُل گیا سارے زمانے پر حِمیّت نام ہے جس کا، گئی تیمور کے گھر سے |