شمع اور شاعر (فروری ۱۹۱۲ء) | |
شاعر دوش می گُفتم بہ شمعِ منزلِ ویرانِ خویش گیسوے تو از پرِ پروانہ دارد شانہ اے در جہاں مثلِ چراغِ لالۂ صحرا ستم نے نصیبِ محفلے نے قسمتِ کاشانہ اے مدّتے مانندِ تو من ہم نفَس می سوختم در طوافِ شعلہ ام بالے نہ زد پروانہ اے می تپد صد جلوہ در جانِ اَمل فرسُودِ من بر نمی خیزد ازیں محفل دلِ دیوانہ اے از کُجا ایں آتشِ عالم فروز اندوختی کرمکِ بے مایہ را سوزِ کلیم آموختی | |
شمع مجھ کو جو موجِ نفَس دیتی ہے پیغامِ اجل لب اسی موجِ نفَس سے ہے نوا پیرا ترا میں تو جلتی ہوں کہ ہے مضمر مری فطرت میں سوز تُو فروزاں ہے کہ پروانوں کو ہو سودا ترا گِریہ ساماں مَیں کہ میرے دل میں ہے طوفانِ اشک شبنم افشاں تُو کہ بزمِ گُل میں ہو چرچا ترا گُل بہ دامن ہے مری شب کے لہُو سے میری صبح ہے ترے امروز سے ناآشنا فردا ترا یوں تو روشن ہے مگر سوزِ درُوں رکھتا نہیں شُعلہ ہے مثلِ چراغِ لالۂ صحرا ترا سوچ تو دل میں، لقب ساقی کا ہے زیبا تجھے؟ انجمن پیاسی ہے اور پیمانہ بے صہبا ترا! اور ہے تیرا شعار، آئینِ ملّت اور ہے زِشت رُوئی سے تری آئینہ ہے رُسوا ترا کعبہ پہلو میں ہے اور سودائیِ بُت خانہ ہے کس قدر شوریدہ سر ہے شوقِ بے پروا ترا قیس پیدا ہوں تری محفل میں! یہ ممکن نہیں تنگ ہے صحرا ترا، محمل ہے بے لیلا ترا اے دُرِ تابندہ، اے پروَردۂ آغوشِ موج! لذّتِ طوفاں سے ہے ناآشنا دریا ترا اب نوا پیرا ہے کیا، گُلشن ہُوا برہم ترا بے محل تیرا ترنّم، نغمہ بے موسم ترا | |
تھا جنھیں ذوقِ تماشا، وہ تو رخصت ہو گئے لے کے اب تُو وعدۂ دیدارِ عام آیا تو کیا انجمن سے وہ پُرانے شعلہ آشام اُٹھ گئے ساقیا! محفل میں تُو آتش بجام آیا تو کیا آہ، جب گُلشن کی جمعیّت پریشاں ہو چکی پھُول کو بادِ بہاری کا پیام آیا تو کیا آخرِ شب دید کے قابل تھی بِسمل کی تڑپ صبحدم کوئی اگر بالائے بام آیا تو کیا بُجھ گیا وہ شعلہ جو مقصودِ ہر پروانہ تھا اب کوئی سودائیِ سوزِ تمام آیا تو کیا پھُول بے پروا ہیں، تُو گرمِ نوا ہو یا نہ ہو کارواں بے حِس ہے، آوازِ درا ہو یا نہ ہو | |
شمعِ محفل ہو کے تُو جب سوز سے خالی رہا تیرے پروانے بھی اس لذّت سے بیگانے رہے رشتۂ اُلفت میں جب ان کو پرو سکتا تھا تُو پھر پریشاں کیوں تری تسبیح کے دانے رہے شوقِ بے پروا گیا، فکرِ فلک پیما گیا تیری محفل میں نہ دیوانے نہ فرزانے رہے وہ جگر سوزی نہیں، وہ شعلہ آشامی نہیں فائدہ پھر کیا جو گِردِ شمع پروانے رہے خیر، تُو ساقی سہی لیکن پِلائے گا کسے اب نہ وہ مے کش رہے باقی نہ مےخانے رہے رو رہی ہے آج اک ٹوٹی ہُوئی مِینا اُسے کل تلک گردش میں جس ساقی کے پیمانے رہے آج ہیں خاموش وہ دشتِ جُنوں پروَر جہاں رقص میں لیلیٰ رہی، لیلیٰ کے دیوانے رہے وائے ناکامی! متاعِ کارواں جاتا رہا کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا | |
جن کے ہنگاموں سے تھے آباد ویرانے کبھی شہر اُن کے مِٹ گئے آبادیاں بَن ہو گئیں سطوَتِ توحید قائم جن نمازوں سے ہوئی وہ نمازیں ہند میں نذرِ برہمن ہو گئیں دہر میں عیشِ دوام آئِیں کی پابندی سے ہے موج کو آزادیاں سامانِ شیون ہو گئیں خود تجلّی کو تمنّا جن کے نظّاروں کی تھی وہ نگاہیں نا اُمیدِ نُورِ ایمن ہوگئیں اُڑتی پھرتی تھیں ہزاروں بُلبلیں گُلزار میں دل میں کیا آئی کہ پابندِ نشیمن ہو گئیں وسعتِ گردُوں میں تھی ان کی تڑپ نظّارہ سوز بجلیاں آسودۂ دامانِ خرمن ہو گئیں دیدۂ خُونبار ہو منّت کشِ گُلزار کیوں اشکِ پیہم سے نگاہیں گُل بہ دامن ہو گئیں شامِ غم لیکن خبر دیتی ہے صبحِ عید کی ظُلمتِ شب میں نظر آئی کرن اُمّید کی | |
مُژدہ اے پیمانہ بردارِ خُمِستانِ حجاز! بعد مُدّت کے ترے رِندوں کو پھر آیا ہے ہوش نقدِ خودداری بہائے بادۂ اغیار تھی پھر دکاں تیری ہے لبریزِ صدائے ناؤ نوش ٹُوٹنے کو ہے طلسمِ ماہ سیمایانِ ہند پھر سلیمیٰ کی نظر دیتی ہے پیغامِ خروش پھر یہ غوغا ہے کہ لاساقی شرابِ خانہ ساز دل کے ہنگامے مئے مغرب نے کر ڈالے خموش نغمہ پیرا ہو کہ یہ ہنگامِ خاموشی نہیں ہے سحَر کا آسماں خورشید سے مینا بدوش در غمِ دیگر بسوز و دیگراں را ہم بسوز گُفتمت روشن حدیثے گر توانی دار گوش! کہہ گئے ہیں شاعری جُزویست از پیغمبری ہاں سُنا دے محفلِ ملّت کو پیغامِ سروش آنکھ کو بیدار کر دے وعدۂ دیدار سے زندہ کر دے دل کو سوزِ جوہرِ گفتار سے | |
رہزنِ ہمّت ہُوا ذوقِ تن آسانی ترا بحر تھا صحرا میں تُو، گلشن میں مثلِ جُو ہوا اپنی اصلیّت پہ قائم تھا تو جمعیّت بھی تھی چھوڑ کر گُل کو پریشاں کاروانِ بُو ہوا زندگی قطرے کی سِکھلاتی ہے اسرارِ حیات یہ کبھی گوہر، کبھی شبنم، کبھی آنسو ہُوا پھر کہیں سے اس کو پیدا کر، بڑی دولت ہے یہ زندگی کیسی جو دل بیگانۂ پہلو ہوا آبرو باقی تری مِلّت کی جمعیّت سے تھی جب یہ جمعیّت گئی، دنیا میں رُسوا تُو ہوا فرد قائم ربطِ مِلّت سے ہے، تنہا کچھ نہیں موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں | |
پردۂ دل میں محبّت کو ابھی مستور رکھ یعنی اپنی مے کو رُسوا صُورتِ مِینا نہ کر خیمہ زن ہو وادیِ سِینا میں مانندِ کلیم شُعلۂ تحقیق کو غارت گرِ کاشانہ کر شمع کو بھی ہو ذرا معلوم انجامِ ستم صَرفِ تعمیرِ سحَر خاکسترِ پروانہ کر تُو اگر خود دار ہے، منّت کشِ ساقی نہ ہو عین دریا میں حباب آسانگُوں پیمانہ کر کیفیت باقی پُرانے کوہ و صحرا میں نہیں ہے جُنوں تیرا نیا، پیدا نیا ویرانہ کر خاک میں تجھ کو مُقدّر نے مِلایا ہے اگر تو عصا اُفتاد سے پیدا مثالِ دانہ کر ہاں، اسی شاخِ کُہن پر پھر بنا لے آشیاں اہلِ گُلشن کو شہیدِ نغمۂ مستانہ کر اس چمن میں پیروِ بُلبل ہو یا تلمیذِ گُل یا سراپا نالہ بن جا یا نوا پیدا نہ کر کیوں چمن میں بے صدا مثلِ رمِ شبنم ہے تُو لب کُشا ہو جا، سرودِ بربطِ عالم ہے تُو | |
آشنا اپنی حقیقت سے ہو اے دہقاں ذرا دانہ تو، کھیتی بھی تو، باراں بھی تو، حاصل بھی تُو آہ، کس کی جُستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے راہ تُو، رہرو بھی تُو، رہبر بھی تُو، منزل بھی تُو کانپتا ہے دل ترا اندیشۂ طوفاں سے کیا ناخدا تو، بحر تو، کشتی بھی تو، ساحل بھی تُو دیکھ آ کر کوچۂ چاکِ گریباں میں کبھی قیس تو، لیلیٰ بھی تو، صحرا بھی تو، محمل بھی تُو وائے نادانی کہ تُو محتاجِ ساقی ہو گیا مے بھی تو، مِینا بھی تو، ساقی بھی تو، محفل بھی تُو شُعلہ بن کر پھُونک دے خاشاکِ غیر اللہ کو خوفِ باطل کیا کہ ہے غارت گرِ باطل بھی تُو بے خبر! تُو جوہرِ آئینۂ ایّام ہے تُو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے | |
اپنی اصلیّت سے ہو آگاہ اے غافل کہ تُو قطرہ ہے، لیکن مثالِ بحرِ بے پایاں بھی ہے کیوں گرفتارِ طلسمِ ہیچ مقداری ہے تُو دیکھ تو پوشیدہ تجھ میں شوکتِ طوفاں بھی ہے سینہ ہے تیرا امِیں اُس کے پیامِ ناز کا جو نظامِ دہر میں پیدا بھی ہے، پنہاں بھی ہے ہفت کِشور جس سے ہو تسخیر بے تیغ و تفنگ تُو اگر سمجھے تو تیرے پاس وہ ساماں بھی ہے اب تلک شاہد ہے جس پر کوہِ فاراں کا سکُوت اے تغافل پیشہ! تجھ کو یاد وہ پیماں بھی ہے؟ تُو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا ورنہ گُلشن میں علاجِ تنگیِ داماں بھی ہے دل کی کیفیّت ہے پیدا پردۂ تقریر میں کِسوتِ مِینا میں مے مستُور بھی، عُریاں بھی ہے پھُونک ڈالا ہے مری آتش نوائی نے مجھے اور میری زندگانی کا یہی ساماں بھی ہے راز اس آتش نوائی کا مرے سینے میں دیکھ جلوۂ تقدیر میرے دل کے آئینے میں دیکھ! | |
آسماں ہوگا سحَر کے نور سے آئینہ پوش اور ظُلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی اس قدر ہوگی ترنّم آفریں بادِ بہار نگہتِ خوابیدہ غنچے کی نوا ہو جائے گی آ ملیں گے سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک بزمِ گُل کی ہم نفَس بادِ صبا ہو جائے گی شبنم افشانی مری پیدا کرے گی سوز و ساز اس چمن کی ہر کلی درد آشنا ہو جائے گی دیکھ لو گے سطوَتِ رفتارِ دریا کا مآل موجِ مضطر ہی اسے زنجیرِ پا ہو جائے گی پھر دلوں کو یاد آ جائے گا پیغامِ سجود پھر جبیں خاکِ حرم سے آشنا ہو جائے گی نالۂ صیّاد سے ہوں گے نوا ساماں طیور خُونِ گُلچیں سے کلی رنگیں قبا ہو جائے گی آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے، لب پہ آ سکتا نہیں محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی شب گریزاں ہو گی آخر جلوۂ خورشید سے یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے |