خطاب بہ جوانانِ اسلام | |
کبھی اے نوجواں مسلم! تدبّر بھی کِیا تُو نے وہ کیا گردُوں تھا تُو جس کا ہے اک ٹُوٹا ہوا تارا | |
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوشِ محبّت میں کُچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاجِ سرِ دارا | |
تمدّن آفریں، خلاّقِ آئینِ جہاں داری وہ صحرائے عرب یعنی شتربانوں کا گہوارا | |
سماں ’الفُقْرَ و فَخرْی‘ کا رہا شانِ امارت میں “بآب و رنگ و خال و خط چہ حاجت رُوے زیبا را” | |
گدائی میں بھی وہ اللہ والے تھے غیور اتنے کہ مُنعم کو گدا کے ڈر سے بخشش کا نہ تھا یارا | |
غرض مَیں کیا کہُوں تجھ سے کہ وہ صحرا نشیں کیا تھے جہاںگیر و جہاںدار و جہاںبان و جہاںآرا | |
اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں مگر تیرے تخیّل سے فزوں تر ہے وہ نظّارا | |
تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی کہ تُو گُفتار وہ کردار، تُو ثابت وہ سیّارا | |
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی ثُریّا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا | |
حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی نہیں دنیا کے آئینِ مسلَّم سے کوئی چارا | |
مگر وہ عِلم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا | |
“غنیؔ! روزِ سیاہِ پیرِ کنعاں را تماشا کُن کہ نُورِ دیدہ اش روشن کُند چشمِ زلیخا را” |