![]() |
| قطعہ | |
| کل ایک شوریدہ خواب گاہِ نبیؐ پہ رو رو کے کہہ رہا تھا کہ مصر و ہندوستاں کے مسلم بِنائے ملّت مِٹا رہے ہیں | |
| یہ زائرانِ حریمِ مغرب ہزار رہبر بنیں ہمارے ہمیں بھلا ان سے واسطہ کیا جو تجھ سے ناآشنا رہے ہیں | |
| غضب ہیں یہ ’مُرشدانِ خود بیں، خُدا تری قوم کو بچائے! بگاڑ کر تیرے مسلموں کو یہ اپنی عزّت بنا رہے ہیں | |
| سُنے گا اقبالؔ کون ان کو، یہ انجمن ہی بدل گئی ہے نئے زمانے میں آپ ہم کو پُرانی باتیں سنا رہے ہیں! | |