٭ مارچ ۱۹۰۷ء | |
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا، عام دیدارِ یار ہو گا سکُوت تھا پردہ دار جس کا، وہ راز اب آشکار ہوگا | |
گزر گیا اب وہ دَور ساقی کہ چھُپ کے پیتے تھے پینے والے بنے گا سارا جہان مےخانہ ، ہر کوئی بادہ خوار ہو گا | |
کبھی جو آوارۂ جُنوں تھے، وہ بستیوں میں پھر آ بسیں گے برہنہ پائی وہی رہے گی، مگر نیا خارزار ہو گا | |
سُنا دیا گوشِ منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا، پھر اُستوار ہو گا | |
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو اُلٹ دیا تھا سُنا ہے یہ قُدسیوں سے مَیں نے، وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا | |
کِیا مرا تذکرہ جو ساقی نے بادہ خواروں کی انجمن میں تو پیرِ میخانہ سُن کے کہنے لگا کہ منہ پھٹ ہے، خوار ہو گا | |
دیارِ مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو، وہ اب زرِ کم عیار ہو گا | |
تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کُشی کرے گی جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائدار ہو گا | |
سفینۂ برگِ گُل بنا لے گا قافلہ مُورِ ناتواں کا ہزار موجوں کی ہو کشاکش مگر یہ دریا سے پار ہو گا | |
چمن میں لالہ دِکھاتا پھرتا ہے داغ اپنا کلی کلی کو یہ جانتا ہے کہ اس دِکھاوے سے دل جلوں میں شمار ہو گا | |
جو ایک تھا اے نگاہ تُو نے ہزار کر کے ہمیں دکھایا یہی اگر کیفیت ہے تیری تو پھر کسے اعتبار ہو گا | |
کہا جو قُمری سے مَیں نے اک دن، یہاں کے آزاد پا بہ گِل ہیں تو غُنچے کہنے لگے، ہمارے چمن کا یہ رازدار ہو گا | |
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں، بنوں میں پھِرتے ہیں مارے مارے میں اُس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا | |
یہ رسمِ بزمِ فنا ہے اے دل! گناہ ہے جنبشِ نظر بھی رہے گی کیا آبرُو ہماری جو تُو یہاں بے قرار ہو گا | |
میں ظُلمتِ شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو شررفشاں ہوگی آہ میری، نفَس مرا شعلہ بار ہو گا | |
نہیں ہے غیر از نمود کچھ بھی جو مدّعا تیری زندگی کا تو اک نفَس میں جہاں سے مِٹنا تجھے مثالِ شرار ہو گا | |
نہ پُوچھ اقبالؔ کا ٹھکانا، ابھی وہی کیفیت ہے اُس کی کہیں سرِ رہ گزار بیٹھا ستم کشِ انتظار ہو گا |