٭ | |
مثالِ پرتوِ مے طوفِ جام کرتے ہیں یہی نماز ادا صبح و شام کرتے ہیں | |
خصوصیت نہیں کچھ اس میں اے کلیم تری شجر حجر بھی خدا سے کلام کرتے ہیں | |
نیا جہاں کوئی اے شمع! ڈھونڈیے کہ یہاں ستم کشِ تپشِ ناتمام کرتے ہیں | |
بھلی ہے ہم نفَسو اِس چمن میں خاموشی کہ خوشنواؤں کو پابندِ دام کرتے ہیں | |
غرض نشاط ہے شغلِ شراب سے جن کی حلال چیز کو گویا حرام کرتے ہیں | |
بھلا نِبھے گی تری ہم سے کیونکر اے واعظ! کہ ہم تو رسمِ محبّت کو عام کرتے ہیں | |
الٰہی سِحر ہے پیرانِ خرقہ پوش میں کیا! کہ اک نظر سے جوانوں کو رام کرتے ہیں | |
میں اُن کی محفلِ عشرت سے کانپ جاتا ہُوں جو گھر کو پھونک کے دنیا میں نام کرتے ہیں | |
ہرے رہو وطنِ مازنی کے میدانو! جہاز پر سے تمھیں ہم سلام کرتے ہیں | |
جو بے نماز کبھی پڑھتے ہیں نماز اقبالؔ بُلا کے دَیر سے مجھ کو امام کرتے ہیں |