پیامِ عشق | |
سُن اے طلب گارِ دردِ پہلو! میں ناز ہُوں، تُو نیاز ہو جا میں غزنوی سومناتِ دل کا ہوں تُو سراپا ایاز ہو جا | |
نہیں ہے وابستہ زیرِ گردُوں کمال شانِ سکندری سے تمام ساماں ہے تیرے سینے میں، تُو بھی آئینہ ساز ہو جا | |
غرض ہے پیکار زندگی سے کمال پائے ہلال تیرا جہاں کا فرضِ قدیم ہے تُو، ادا مثالِ نماز ہو جا | |
نہ ہو قناعت شعار گُلچیں! اسی سے قائم ہے شان تیری وفورِ گُل ہے اگر چمن میں تو اور دامن دراز ہو جا | |
گئے وہ ایّام، اب زمانہ نہیں ہے صحرانوَردیوں کا جہاں میں مانندِ شمعِ سوزاں میانِ محفل گداز ہو جا | |
وُجود افراد کا مجازی ہے، ہستیِ قوم ہے حقیقی فِدا ہو مِلّت پہ یعنی آتش زنِ طلسمِ مجاز ہو جا | |
یہ ہند کے فرقہ ساز اقبالؔ آزری کر رہے ہیں گویا بچا کے دامن بُتوں سے اپنا غُبارِ راہِ حجاز ہو جا |