ایک شام (دریائے نیکر ’ہائیڈل برگ ‘ کے کنارے پر) | |
خاموش ہے چاندنی قمر کی شاخیں ہیں خموش ہر شجر کی | |
وادی کے نوا فروش خاموش کُہسار کے سبز پوش خاموش | |
فطرت بے ہوش ہو گئی ہے آغوش میں شب کے سو گئی ہے | |
کچھ ایسا سکُوت کا فُسوں ہے نیکر کا خرام بھی سکُوں ہے | |
تاروں کا خموش کارواں ہے یہ قافلہ بے درا رواں ہے | |
خاموش ہیں کوہ و دشت و دریا قُدرت ہے مُراقبے میں گویا | |
اے دِل! تُو بھی خموش ہو جا آغوش میں غم کو لے کے سو جا |