اخترِ صُبح | |
ستارہ صبح کا روتا تھا اور یہ کہتا تھا مِلی نگاہ مگر فرصتِ نظر نہ ملی ہوئی ہے زندہ دمِ آفتاب سے ہر شے اماں مجھی کو تہِ دامنِ سحَر نہ ملی بساط کیا ہے بھلا صبح کے ستارے کی نفَس حباب کا، تابندگی شرارے کی | |
کہا یہ میں نے کہ اے زیورِ جبینِ سحَر! غمِ فنا ہے تجھے! گُنبدِ فلک سے اُتر ٹپک بلندیِ گردُوں سے ہمرہِ شبنم مرے ریاضِ سخن کی فضا ہے جاں پرور میں باغباں ہوں، محبّت بہار ہے اس کی بِنا مثالِ ابد پائدار ہے اس کی |