پیا م | |
عشق نے کر دیا تجھے ذوقِ تپش سے آشنا بزم کو مثلِ شمعِ بزم حاصلِ سوز و ساز دے | |
شانِ کرم پہ ہے مدار عشقِ گرہ کشاے کا دَیر و حرم کی قید کیا! جس کو وہ بے نیاز دے | |
صورتِ شمع نُور کی مِلتی نہیں قبا اُسے جس کو خدا نہ دہر میں گریۂ جاں گداز دے | |
تارے میں وہ، قمر میں وہ، جلوہ گہِ سحَر میں وہ چشمِ نظارہ میں نہ تُو سُرمۂ امتیاز دے | |
عشق بلند بال ہے رسم و رہِ نیاز سے حُسن ہے مستِ ناز اگر تُو بھی جوابِ ناز دے | |
پیرِ مغاں! فرنگ کی مے کا نشاط ہے اثر اس میں وہ کیفِ غم نہیں، مجھ کو تو خانہ ساز دے | |
تجھ کو خبر نہیں ہے کیا! بزم کُہن بدل گئی اب نہ خدا کے واسطے ان کو مئے مجاز دے |