صفحہ اوّل

حقیقتِ حُسن
خدا سے حُسن نے اک روز یہ سوال کیا
جہاں میں کیوں نہ مجھے تُو نے لازوال کیا
مِلا جواب کہ تصویر خانہ ہے دنیا
شبِ درازِ عدم کا فسانہ ہے دنیا
ہوئی ہے رنگِ تغیّر سے جب نمود اس کی
وُہی حسیں ہے حقیقت زوال ہے جس کی
کہیں قریب تھا، یہ گُفتگو قمر نے سُنی
فلک پہ عام ہوئی، اخترِ سحر نے سُنی
سحَر نے تارے سے سُن کر سُنائی شبنم کو
فلک کی بات بتا دی زمیں کے محرم کو
بھر آئے پھُول کے آنسو پیامِ شبنم سے
کلی کا ننھّا سا دل خون ہو گیا غم سے
چمن سے روتا ہوا موسم بہار گیا
شباب سیر کو آیا تھا، سوگوار گیا