٭ | |
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے نظّارے کی ہوس ہو تو لیلیٰ بھی چھوڑ دے | |
واعظ! کمالِ ترک سے مِلتی ہے یاں مراد دنیا جو چھوڑ دی ہے تو عقبیٰ بھی چھوڑ دے | |
تقلید کی روِش سے تو بہتر ہے خودکُشی رستہ بھی ڈھُونڈ، خِضر کا سودا بھی چھوڑ دے | |
مانندِ خامہ تیری زباں پر ہے حرفِ غیر بیگانہ شے پہ نازشِ بے جا بھی چھوڑ دے | |
لُطفِ کلام کیا جو نہ ہو دل میں دردِ عشق بِسمل نہیں ہے تُو تو تڑپنا بھی چھوڑ دے | |
شبنم کی طرح پھُولوں پہ رو، اور چمن سے چل اس باغ میں قیام کا سودا بھی چھوڑ دے | |
ہے عاشقی میں رسم الگ سب سے بیٹھنا بُت خانہ بھی، حرم بھی، کلیسا بھی چھوڑ دے | |
سوداگری نہیں، یہ عبادت خدا کی ہے اے بے خبر! جزا کی تمنّا بھی چھوڑ دے | |
اچھّا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبانِ عقل لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے | |
جینا وہ کیا جو ہو نفَسِ غیر پر مدار شہرت کی زندگی کا بھروسا بھی چھوڑ دے | |
شوخی سی ہے سوالِ مکرّر میں اے کلیم! شرطِ رضا یہ ہے کہ تقاضا بھی چھوڑ دے | |
واعظ ثبوت لائے جو مے کے جواز میں اقبالؔ کو یہ ضد ہے کہ پینا بھی چھوڑ دے |