![]() |
| ٭ | |
| سختیاں کرتا ہوں دل پر، غیر سے غافل ہوں میں ہائے کیا اچھّی کہی ظالم ہوں میں، جاہل ہوں میں | |
| میں جبھی تک تھا کہ تیری جلوہ پیرائی نہ تھی جو نمودِ حق سے مٹ جاتا ہے وہ باطل ہوں میں | |
| علم کے دریا سے نِکلے غوطہ زن گوہر بدست وائے محرومی! خزف چینِ لبِ ساحل ہوں میں | |
| ہے مری ذلّت ہی کچھ میری شرافت کی دلیل جس کی غفلت کو مَلَک روتے ہیں وہ غافل ہوں میں | |
| بزمِ ہستی! اپنی آرائش پہ تُو نازاں نہ ہو تُو تو اک تصویر ہے محفل کی اور محفل ہوں میں | |
| ڈھُونڈتا پھرتا ہوں اے اقبالؔ اپنے آپ کو آپ ہی گویا مسافر، آپ ہی منزل ہوں میں | |