٭ | |
کُشادہ دستِ کرم جب وہ بے نیاز کرے نیاز مند نہ کیوں عاجزی پہ ناز کرے | |
بِٹھا کے عرش پہ رکھّا ہے تو نے اے واعظ! خدا وہ کیا ہے جو بندوں سے احتراز کرے | |
مری نگاہ میں وہ رند ہی نہیں ساقی جو ہوشیاری و مستی میں امتیاز کرے | |
مدام گوش بہ دل رہ، یہ ساز ہے ایسا جو ہو شکستہ تو پیدا نوائے راز کرے | |
کوئی یہ پُوچھے کہ واعظ کا کیا بگڑتا ہے جو بے عمل پہ بھی رحمت وہ بے نیاز کرے | |
سخن میں سوز، الٰہی کہاں سے آتا ہے یہ چیز وہ ہے کہ پتھّر کو بھی گداز کرے | |
تمیزِ لالہ و گُل سے ہے نالۂ بُلبل جہاں میں وا نہ کوئی چشمِ امتیاز کرے | |
غرورِ زُہد نے سِکھلا دیا ہے واعظ کو کہ بندگانِ خدا پر زباں دراز کرے | |
ہوا ہو ایسی کہ ہندوستاں سے اے اقبالؔ اُڑا کے مجھ کو غبارِ رہِ حجاز کرے |