٭ | |
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی | |
منصُور کو ہُوا لبِ گویا پیامِ موت اب کیا کسی کے عشق کا دعویٰ کرے کوئی | |
ہو دید کا جو شوق تو آنکھوں کو بند کر ہے دیکھنا یہی کہ نہ دیکھا کرے کوئی | |
میں انتہائے عشق ہوں، تُو انتہائے حُسن دیکھے مجھے کہ تجھ کو تماشا کرے کوئی | |
عذر آفرینِ جرمِ محبّت ہے حُسنِ دوست محشر میں عذرِ تازہ نہ پیدا کرے کوئی | |
چھُپتی نہیں ہے یہ نگہِ شوق ہم نشیں! پھر اور کس طرح اُنھیں دیکھا کرے کوئی | |
اَڑ بیٹھے کیا سمجھ کے بھلا طُور پر کلیم طاقت ہو دید کی تو تقاضا کرے کوئی | |
نظّارے کو یہ جُنبشِ مژگاں بھی بار ہے نرگس کی آنکھ سے تجھے دیکھا کرے کوئی | |
کھُل جائیں، کیا مزے ہیں تمنّائے شوق میں دو چار دن جو میری تمنا کرے کوئی |