![]() |
| ٭ | |
| انوکھی وضع ہے، سارے زمانے سے نرالے ہیں یہ عاشق کون سی بستی کے یا رب رہنے والے ہیں | |
| علاجِ درد میں بھی درد کی لذّت پہ مرتا ہُوں جو تھے چھالوں میں کانٹے، نوکِ سوزن سے نکالے ہیں | |
| پھلا پھُولا رہے یا رب! چمن میری اُمیدوں کا جگر کا خون دے دے کر یہ بُوٹے مَیں نے پالے ہیں | |
| رُلاتی ہے مجھے راتوں کو خاموشی ستاروں کی نرالا عشق ہے میرا، نرالے میرے نالے ہیں | |
| نہ پُوچھو مجھ سے لذّت خانماں برباد رہنے کی نشیمن سینکڑوں میں نے بنا کر پھونک ڈالے ہیں | |
| نہیں بیگانگی اچھّی رفیقِ راہِ منزل سے ٹھہر جا اے شرر، ہم بھی تو آخر مِٹنے والے ہیں | |
| اُمیدِ حور نے سب کچھ سِکھا رکھا ہے واعظ کو یہ حضرت دیکھنے میںسیدھے سادے، بھولے بھالے ہیں | |
| مرے اشعار اے اقبالؔ! کیوں پیارے نہ ہوں مجھ کو مرے ٹُوٹے ہُوئے دل کے یہ درد انگیز نالے ہیں | |