![]() |
| ٭ | |
| نہ آتے، ہمیں اس میں تکرار کیا تھی مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی | |
| تمھارے پیامی نے سب راز کھولا خطا اس میں بندے کی سرکار کیا تھی | |
| بھری بزم میں اپنے عاشق کو تاڑا تری آنکھ مستی میں ہشیار کیا تھی! | |
| تامّل تو تھا اُن کو آنے میں قاصد مگر یہ بتا طرزِ انکار کیا تھی | |
| کھِنچے خود بخود جانبِ طُور موسیٰؑ کشش تیری اے شوقِ دیدار کیا تھی! | |
| کہیں ذکر رہتا ہے اقبالؔ تیرا فسوں تھا کوئی، تیری گُفتار کیا تھی | |